اسلام آباد (اے ون نیوز)سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئین بنانے والوں نے الیکشن کمیشن کو ادارہ بنایا اور وہ چاہیں تو ختم بھی کرسکتے ہیں، فی الحال الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔
اگر ہائیکورٹ الیکٹورل کام شروع کردے تو کیا ہوگا؟سماعت کے دوران وکیل سلمان اکرم راجا نے مو¿قف اختیار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کو عملدرآمد کرنا چاہیے تھا، لاہورہائیکورٹ کے حکم پر کوئی فیصلہ دیے بغیر سپریم کورٹ معاملہ ختم نہیں کرسکتی۔سلمان اکرم راجا کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم عدالتی فیصلوں پر انحصار کریں یا آئین پر؟ عدالت آئین کی پابند ہے، مجھے سروکار نہیں کسی جج نے کیا فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنی مرضی کے ججز ٹربیونلز کے لیے چاہتے ہیں؟ جب لاہورہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں مشاورت ہوچکی تو مزید کیا کرنا چاہیے؟ آپ چاہتے ہیں ٹربیونلز کا معاملہ ختم ہی نا ہو۔ اس پرسلمان اکرم نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم کالعدم یا برقرار رکھے بغیر یہ کیس ختم نہیں ہوگا، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں کہ کون سا جج کون سا ٹربیونل کیس سنے گا۔
عدالتی فیصلوں کے بجائے صرف آئین پر عملدرآمد ہو تو ملک میں مسائل پیدا ہونگے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین بنانے والوں کی دانائی ہوتی ہے، آئین بہت پیچیدہ کتاب ہے جو صرف ایک داناشخص ہی سمجھ سکتا ہے، آئین بنانے والوں نے الیکشن کمیشن کو آئینی ادارہ بنایا، وہ چاہیں تو ختم بھی کرسکتے ہیں، فی الحال الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اگر ہائیکورٹ اگر الیکٹورل کام شروع کردے تو کیا ہوگا؟سلمان اکرم راجہ کے وکیل حامد خان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ایک درخواست ہم نے دینی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں، قابلِ احترام ہیں، پہلے عدالتی آرڈر پڑھنے دیں۔اس موقع پر جواب دہندہ سلمان اکرم راجہ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کر دیا۔
وکیل حامد خان نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ کے کیس سننے پر اعتراض ہے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے خود کو علیحدہ کرنا ہے تو کر لیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں آپ کا احترام ہے، ابھی اٹارنی جنرل گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھیں گے، آپ اپنی نشست پر بیٹھے رہیں، آپ کو بعد میں سنیں گے جس کے بعد جواب دہندہ سلمان اکرم راجہ کے وکیل حامد خان کمرہ عدالت سے چلے گئے۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے تحریری جواب کے مطابق ہائی کورٹ کی مشاورت سے مسئلہ حل ہو گیا۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے 4 ٹربیونل قائم رکھے اور باقی 4 الیکشن کمیشن مقرر کرےگا۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میں معاملات طے پا گئے۔وکیل نے کہا کہ جی بالکل کیونکہ قانون بدل گیا تھا اس لیے اب نئے 4 ٹربیونلز الیکشن کمیشن مقرر کرے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی مدت 5 سال ہے جو بڑھ نہیں سکتی، اسٹے آرڈر والے کیسز بھی سپریم کورٹ میں آتے ہیں، جو معاملات عدالت کے نہیں انہیں آپس میں حل کریں، ایک درخواست کر کے تھک گیا ہوں لیکن کسی نے زحمت نہیں کی، آئین کو دیکھیں، آئین کیا کہتا ہے، آئین کی کتاب ہے لیکن آئین کو کوئی پڑھنا گوارا نہیں کرتا، ٹربیونل کی تعداد کا انحصار کیسز پر ہے، کیسز کو دیکھتے ہوئے ججز کی تعداد پر فیصلہ کریں، اگر ججز کی تعداد کیسز کو دیکھتے ہوئے کم ہوئی تو غیرمنصفانہ ہو گا، مجھے نہیں معلوم بلوچستان یا پنجاب میں کتنے کیسز زیرِ التواءہیں۔سلمان اکرم راجہ اپنے وکیل حامد خان کے ساتھ دوبارہ کمرہ عدالت میں واپس آ گئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو خط چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو لکھا وہ ہمیں دکھا دیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے رجسٹرار کو بتایا، ایسا ہی میکنزم ہوتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کس نے بتایا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے رجسٹرار کو خط لکھا؟ آپ کو بتا دوں سپریم کورٹ کے جج کا آرڈر رجسٹرار نے نہیں مانا، آپ کو معلوم ہو گا کہ کدھر ریفر کر رہا ہوں۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ بات آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں، دونوں کی ملاقات ہو گئی، دونوں مان گئے، ہائی کورٹ نے کس قانون کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا؟ کیا ہائی کورٹ نوٹیفیکیشن جاری کر سکتی ہے؟سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وقت کم تھا، انتخابات سر پر تھے، ریٹائرڈ ججز کی تعیناتی میں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کی ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ میں ریٹائرڈ ججز کی تعیناتی چیلنج کی ہے تو یہاں بات نہ کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوئی جج کرپٹ ہے تو آپ کیا کرو گے؟سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں کہ کون سا جج کون سا ٹربیونل کا کیس سنے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک ہفتے میں باقی ٹربیونلز کا قیام یقینی بنائے، ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، ہم کسی کے دشمن نہیں ایک ملک کے بسنے والے ہیں، گزشتہ سماعت پر الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے پاس بھیجا، کیا آپ کو صرف 2 ججز ہی چاہئیں؟ کیا آپ لاہور ہائی کورٹ کی تائید کر رہے ہیں؟جسٹس مندوخیل نے کہا کہ کیا ہم ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت میں مداخلت کر سکتے ہیں؟ آپ یہ بتائیں کہ کیا ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ٹریبونل کو مانیٹر کر سکتا ہے؟ میں خود ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں، کبھی کسی کو مانیٹر نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی چیف جسٹس کا رشتے دار کسی سیاسی جماعت میں ہو تو کیا اسے فیصلہ کرنا چاہیے؟ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، کوئی تنازع آئے گا تو ہائی کورٹ حل کرے گی، آج مختصر فیصلہ جاری نہیں ہو سکے گا، الیکشن کمیشن ٹربیونلز کے نوٹیفکیشن پر کام کا آغاز آج سے شروع کر دے۔بعد ازاں عدالت نے پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائے گا۔