اہم خبریںبلاگ

مجاور قوم….ستار چودھری

کور کمانڈر ہائوس (جس کے بارے اب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ جناح ہائوس ہے) میں تھوڑ پھوڑ ہوئی، جلائو گھیرائو ہوا، بہت برا ہوا، انتہائی قابل مذمت، ایم ایم عالم کے زیر استعمال طیارے کو جلایا گیا (حالانکہ یہ پروپیگنڈہ ہے، وہ طیارہ کراچی میں ہے) پھر بھی، یہ شرپسندی ہے، ملزموں کو سزا ملنی چاہیے۔ کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کو توڑا گیا، انتہائی شرمناک فعل، ناقابل معافی جرم ہے۔

لیکن میرا سوال کچھ اور ہے، کیا ہم نے اپنے ہیروز کی ان کے زندہ ہوتے ہوئے اتنی قدر کی، اتنا احترام دیا، اتنی عزت دی جس کے وہ مستحق تھے؟ پہلے قائد اعظم کے طرف آتے ہیں، کیا جناح ہائوس میں قائد اعظم کو کسی نے ایک دن بھی رہنے دیا؟ ان کا خریدا ہوا گھر انہیں واپس ملا؟ قائد کے ساتھ آخری ایام میں جو ان کے ساتھ سلوک کیا گیا، جس طرح انکی موت ہوئی، حالات واقعات کچھ مناسب نہیں ورنہ لکھ دیتا۔ آج انکے زیر قبضہ گھر پر سیاست ہو رہی ہے۔ قائد کی وفات پر ’’قوم کی ماں‘‘ کو تین سال تک بولنے نہیں دیا گیا۔ تین سال بعد جناح کی برسی پر انہیں ریڈیو پاکستان پر تقریر کرنے کا موقع دیا گیا، جونہی وہ قائد کے آخری ایام کا ذکر کرنے لگیں۔ تقریر کٹ کر دی گئی۔

انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ انکی موت کیسے ہوئی؟ کم سے کم شعور رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے۔ خرم دستگیر بھی جناح ہائوس کا منجن فروخت کر رہے تھے، جن کے والد غلام دستگیر نے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ سب جانتے ہیں، لکھنے کی کیا ضرورت۔ قائد اعظم کے رشتے دار محمد اسلم جناح (انہیں قائد کا نواسہ بھی کہا جاتا ہے) 2020 میں کراچی میں انتقال کر گئے تھے، ان کے بھانجے خورشید بیگم کے اکلوتے صاحبزادے 17 سالہ سکندر محمد علی کو پولیس نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ محمد اسلم چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے گزر بسر کرتے رہے، انکے پاس ذاتی گھر بھی نہیں تھا۔ ایم ایم عالم پاکستان کا ہیرو، انتہائی دلیر۔ 1969میں انہیں سٹاف کالج سے کیوں نکالا گیا تھا؟ اس کے بعد آئیں1977 میں جب ضیاءالحق نے مارشل لاء نافذ کیا۔ ایم ایم عالم مارشل لاء کے خلاف تھے، ان کا موقف تھا ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا، ہم نے اگر ایسی غلطیاں جاری رکھیں تو باقی ماندہ پاکستان بھی کھو دیں گے۔وہ ضیا ءالحق کیخلاف تھے، ان کیخلاف بولتے تھے، خفیہ ادارے انکی گفتگو ریکارڈ کرتے تھے۔1982میں انور شمیم ائیر فورس کے چیف تھے، یہ صدر ضیاءالحق کے دوست بھی تھے، یہ دونوں اردن میں اکٹھے رہے تھے۔انور شمیم کی بیگم پر کچھ کرپشن کے الزامات لگ رہے تھے، ایم ایم عالم نے ائیر فورس کے میس میں ان الزامات کا ذکر کر دیا۔ انہوں نے کہا جنرل ضیاءالحق اپنے ساتھیوں سے ملکر ملک کو تباہ کر رہے ہیں، خفیہ ادارے نے یہ گفتگو ریکارڈ کر کے چیف آف ائیر سٹاف کو پہنچا دی اور انور شمیم یہ ٹیپ لیکر ضیاءالحق کے پاس چلے گئے۔

جنرل ضیاءالحق نے ٹیپ سنی اور ایم ایم عالم کو ائیر فورس سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا اور یوں پاکستان کے ہیرو اور ائیر فورس کی تاریخ کے ورلڈ ریکارڈ یافتہ ایم ایم عالم کو 1982 میں قبل از وقت ریٹائرڈ کر دیا گیا، وہ اس وقت ائیر کموڈور تھے۔ایم ایم عالم کی پنشن سمیت تمام مراعات روک لی گئیں۔ وہ درویش صفت انسان تھے، ان کا کوئی گھر نہیں تھا نہ ہی انہوں نے شادی کی تھی۔ وہ چکلالہ ائیر بیس کے بیس میں مقیم ہو گئے اور ایک کمرے تک محدود تھے جہاں عبادت کرتے اور کتابیں پڑھتے۔ باقی ہیروز کے ساتھ کیا سلوک ہوا تاریخ گواہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ پرویز مشرف کے دور میں کیا سلوک ہوا تھا؟ پوری قوم نے دیکھا تھا۔ ساغر صدیقی کو ہی دیکھ لیں، انکی وفات کیسے ہوئی، کہاں ہوئی؟ وہ کہاں رہتے تھے، کیسے زندگی بسر کرتے تھے؟ ایک درد بھری کہانی ہے اور آج ان کا ’’ساغر میلہ‘‘ لگتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے لیکر اصغر خان تک، حسین شہید سہروردی سے لیکر اے کے فضل الحق تک، جالب سے فیض تک سب کو دیکھ لیں ان کے ساتھ انکی زندگی میں کیسا سلوک ہوتا رہا۔

خلیل جبران کی نظم (Pity the Nation) ’’ شرمناک قوم ‘‘ ۔وہ عقائد سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہوتی ہے، وہ کپڑا پہنتی ہے جو خود نہیں بُنتی، وہ روٹی کھاتی ہے جو اس کے اپنے کھیتوں میں نہیں اُگتی، غنڈوں کو ہیرو قرار دیتی ہے اور ہر غالب آنے والے کو جھولی بھر بھر کے درازی عمر کی دعائیں دیتی ہے، اس کی آواز جنازوں اور ماتمی جلوسوں کے سوا کہیں بلند نہیں ہوتی، اپنے کھنڈرات پر ناز کرتی ہے، اس وقت تک بغاوت پر آمادہ نہیں ہوتی جب تک موت کے منہ میں نہ پہنچ جائے۔ اس کے سیاست دان اور سفارت کار لومڑ اور فلسفی مداری ہوتے ہیں، تخلیق سے عاری ہوتی ہے اور اس کا ہُنر نقالی ہوتا ہے، ہر حکمران کا استقبال خوشی کے نقارے بجا کر کرتی ہے اور آوازے کَس کَس کے اسے رخصت کرتی ہے تاکہ اس کے بعد والے کو بھی شادیانوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ کر گالیوں کے ساتھ گڈبائے کہہ سکے۔ قومی یکجہتی سے دور ہو کر اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہوتی ہے کہ ہر ٹکڑا خود کو ایک الگ قوم تصور کرنے لگ جاتا ہے۔

قومیں اپنے ہیروز کو مرنے نہیں دیتیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انہیں جینے نہیں دیتے۔ ہمارے ہیروز گمنامی کی موت مر جاتے ہیں یا پھر ان کے مرنے کے بعد ان کی قدر کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک میں بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ نشان حیدر بھی دنیا سے رُخصت ہونے کے بعد ملتا ہے، کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ہم حیات قومی ہیروز کے یاور نہیں بلکہ مُردہ ہیروز کی قبروں کے مجاور ہیں۔

نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button