کراچی (اے ون نیوز) پیپلز پارٹی کے چیئرمین و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت، آئین اور الیکشن کو ایک شخص کی واپسی کیلئے روکا گیا، آج کے بعد ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم شروع کر رہے ہیں، خود جگہ جگہ جاؤں گا، ایک ہی مطالبہ ہو گا الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرو۔
تفسیلات کے مطابق سانحہ کارساز کے حوالے سے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کو عوام کا مطالبہ ماننا پڑے گا، 90 دن سے زائد کی کڑوی گولی تب کھا سکتے ہیں جب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے، الیکشن میں تاخیر، ووٹ کی عزت نہیں بے عزتی ہے، انشاء اللہ جیت جیالوں کی ہوگی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ کوئی بولے نہ بولے میں تو حق کا مطالبہ کروں گا، انہوں نے کہا کہ اُمید ہے ریاستی انتظامات کے بعد استقبال بھی بڑا ہو گا اور الیکشن کی تاریخ بھی آئے گی۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ظالمانہ طریقے سے مارا جا رہا ہے، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو فلسطین کے لیے بولنا پڑے گا، فلسطینی اکیلے نہیں، پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 18 اکتوبر 2007ء کو 16 سال گزر چکے ہیں، محترمہ شہید آمریت سے آزادی دلانے کے لیے ملک آئی تھیں، محترمہ شہید کی وطن واپسی ایک تاریخی دن تھا،آج ہم فلسطینیوں کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 18 اکتوبر کو رات کے اندھیرے میں بزدل دہشت گردوں نے حملہ کیا، حملے میں تقریباً 200 جیالے شہید ہوئے، جیالے نظریات، منشور کی خاطر تختہ دار پر چڑھ کر شہادتیں قبول کر لیتے ہیں، پیپلز پارٹی جیسے وفادار کارکن کہیں نہیں ملیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جیالے آمر، دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، آج ہم شہیدوں کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، پاکستان کے عوام فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، فلسطین کے عوام تنہا نہیں ہیں، جب تک پاکستان ہے تب تک فلسطین کےعوام اکیلے نہیں ہو سکتے، مشکل وقت میں فلسطین کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے سابق صدر یاسر عرفات نے ضیاالحق سے مکہ میں وعدہ لیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی نہیں دیں گے، ضیاالحق وعدے سے مکر گیا اور بھٹو کو پھانسی دی، فلسطین ایشوز پر پورا پاکستان متحد ہے، باقی ساری چیزوں پر ہم تقسیم ہیں، ملک کے باقی مسائل کو حل کرنے کے لیے متحد ہونا ہو گا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آج پاکستان میں ہربات پر تقسیم ہے، آج ملک کو قومی اتحاد کی ضرورت ہے، نفرت، تقسیم، گالی کی سیاست، روایتی سیاست کو رد کرنا پڑے گا، آج کے پاکستان میں نئی سوچ اور نئی سیاست کی ضرورت ہے، ملک کو نئی قیادت کی ضرورت ہے، ایسی قیادت ہو جو ماضی میں پھنسی ہوئی نہ ہو، 90ء نہ 2017ء ہمیں 2023ء کا جدید ترین پاکستان چاہیے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ الزام تراشی،گالم گلوچ کی سیاست کو چھوڑنا ہوگا، ماننا ہوگا پاکستان اس وقت صحیح سمت میں نہیں چل رہا، معیشت تاریخی بحران سے گزر رہی ہے، قصورجس کا بھی ہے اب آگے بڑھنا ہو گا، پارلیمان اور سیاست کو جگہ دینا پڑے گی، اتفاق رائے پیدا کر کے جمہوریت، اٹھارویں ترمیم بحال ہو سکتی ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تقسیم کے بجائے خدمت کی سیاست پر زور دیا جائے، ہمیں سیاست میں برداشت پیدا کرنا پڑے گی، سیاست میں اختلاف رائے کی جگہ چھوڑنا ہوگی، ملک میں جمہوری سیاست کو بحال اور انا کی سیاست کو دفن کرنا پڑے گا، عوام ہی اپنے منتخب نمائندوں کو چُن سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تقسیم، مخالفت کی سیاست کو ختم کر کے جمہوریت اور مفاہمت کو بحال کریں گے تو سیاسی استحکام پیدا ہو گا، سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام بھی پیدا کر سکتے ہیں، سکیورٹی کے مسائل کا مل کر مقابلہ کرسکیں گے، ایک مخصوص طبقے کے بجائے عوام کو ریلیف دینا ہوگا، اگر ایک مخصوص طبقہ فائدہ اٹھائے گا تو عوام غریب ہی ہوتے رہیں گے، پیپلزپارٹی کے ہر دور میں عام آدمی کو ریلیف دیا گیا۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ سلیکشنز نے ہمارے ملک کی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے، ماضی میں قصور جس کا بھی ہو ہمیں الیکشن کرانے پڑیں گے، عوام پر بھروسہ کرنا پڑے گا، صرف عوام کو حق حاصل ہے کہ مستقبل کے فیصلے کریں۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے سی پیک کی بنیاد رکھی تھی، آصف زرداری پر چین کے دوروں پر تنقید کرنے والے آج سی پیک کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں، وژن اور منصوبہ زرداری کا تو کریڈٹ بھی زرداری کا ہے، انہوں نے عوام سے کہا کہ جب آپ ہمیں اگلی بار منتخب کر کے حکومت دلوائیں گے تو نیا اکنامک کوریڈور شروع کریں گے، اکنامک کوریڈور کو پسماندہ علاقوں میں شروع کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اقتدار میں آکر ہم سبز معاشی انقلاب لے کر آئیں گے، سبز معاشی انقلاب لانے کے لیے روایتی، الزامات، پکڑ، دھکڑ کی سیاست کو چھوڑنا پڑے گا، جب تک آپس میں لڑتے رہیں گے تب تک پاکستان ترقی نہیں کر سکے گا، جنہوں نے قومی اداروں پر حملے کیے ان کو سزا ملنی چاہیے، پورے پاکستان کو پتا چلنا چاہیے کون صحیح اور کون غلط تھا۔